طیبہ بخاریکالمز

یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔ طیبہ بخاری

موٹروے پر ایک اور اجتماعی زیادتی کا واقعہ رونما ہو گیا ۔۔۔کیوں ؟ تو جواب یہ ہے کہ پہلے والے واقعے میں درندوں کو نشان عبرت بنادیا جاتا تو شائد ایسے واقعات ختم یا کم ضرور ہو جاتے ایسا لگتا ہے

آخر گزر ہی جائے گی حیات
یہ کوئی تا حیات تھوڑی ہے
موٹروے پر ایک اور اجتماعی زیادتی کا واقعہ رونما ہو گیا ۔۔۔کیوں ؟ تو جواب یہ ہے کہ پہلے والے واقعے میں درندوں کو نشان عبرت بنادیا جاتا تو شائد ایسے واقعات ختم یا کم ضرور ہو جاتے ایسا لگتا ہے چند دنوں کی مذمت اور پویس اہلکاروں کی بھاگ دوڑ کے بعد پھر سب اپنے اپنے مقام پر واپس چلے جاتے اور خاموش تماشائی بن جاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ ان گنت واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں اور روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن ان میں سے چند پر آج ہم بات کریں گے ذرا غور کیجئے کہ ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔۔۔۔
موبائل فون کیوں استعمال کیا؟ گوجرانوالا میں 20 سالہ نوجوان نے فائرنگ کر کے سگی بہن کو قتل کردیا۔ بھائی نے بہن پر موبائل رکھنے پر پابندی لگائی تھی، چھپ کر موبائل خریدنے کا بھائی کو پتہ چلا تو جھگڑا ہوگیا۔والد کی مدعیت میں بیٹے کے خلاف مقدمہ درج اورپولیس نے فرار ملزم کی تلاش شروع کردی ہے۔۔۔۔۔
یہاں ایک اور واقعہ بیان کرنا ضروری ہے پنوعاقل میں سکول کی طالبہ کیساتھ زیادتی کے بعد اسے نازیبا وڈیوز بناکر بلیک مل کیا جاتا رہا لیکن سندھ حکومت میں شامل سندھ چائلڈ پروٹیکشن کی چیئرپرسن ایم پی اے شمیم ممتاز نے متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کے بجائے وڈیرے کو ”علاقے کا باپ“ قرار دیکر معاملہ حل کرنے کا مشورہ دےدیا۔سندھ چائلڈ پوٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن صاحبہ کا کہنا ہے کہ ” وڈیرے کا نقشہ برا کھینچا گیا میں کہتی ہوں وڈیرا گاﺅں کا باپ ہے۔عدالتیں اور پولیس اپنا کام کر رہی ہیں لیکن معاملہ2ماہ بعد بھی صفر پر کھڑا ہے۔ “ چیئرپرسن شمیم ممتاز نے پنوعاقل پہنچ کر متاثرہ خاندان سے ملاقات کی، بچی اور اس کے والدین کو ہر ممکن تعاون کا یقین کچھ اس طرح دلایا کہ اس نے نہ صرف حیران بلکہ سوالات کھڑے کردئیے۔۔۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے معاشرے میں ۔۔۔۔قوت برداشت کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے۔صرف خواتین ہی نہیں بچے بھی زیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں 30ستمبر کو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ پشاورمیں سنگدل شخص نے 5 سالہ بچے کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالابچہ ٹافیاں خریدنے گھر سے نکلا تھا۔ اسی روز یہ خبر بھی چھپی کہ سوات میں نوجوان نے گلی میں کھیلتے 4 سال کے بچے کو ورغلا کراپنے خالی گھر میں لے جاکر ہوس کا نشانہ بناڈالا۔25ستمبر کو یہ خبر شائع ہوئی کہ پشاور کے علاقے پہاڑی پورہ کمبوہ میں دوست نے اپنے نوعمر دوست کو اسلحہ کی نوک پر زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔یکم اکتوبر کو لاہور میں پولیس کانسٹیبل نے 9سال کے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔۔۔لاہور کی بات شروع ہوئی ہے تو پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں رواں سال 1500سے زائد بچوں اور خواتین کو اغواءکیا گیا ، بچوں کے اغواءکے 498مقدمات درج جبکہ مردوں اور لڑکیوں کے اغواءکی 1092وارداتیں ہوئیں ۔ اغواءبرائے تاوان سمیت مختلف وجوہات پر بچوں اور خواتین کو اغواءکرنے کے کیسز میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اغواءکے 50فیصد سے زائد کیسز نمٹا دئیے گئے ہیں زیادہ تر واقعات میں گھریلو جھگڑے ، خاندانی دشمنیاںاور دیگر وجوہات پر لوگ گھروں سے گئے ۔۔۔۔یہ ہے صرف ایک شہر کی صورتحال اگر ہم نے پورے ملک کی صورتحال اعدادوشمار میں بیان کی تو طویل وقت اور صفحات درکار ہونگے اور آپ انہیں جان کر کم سے کم نفسیاتی مریض ضرور بن جائیں گے۔
ہمارے معاشرے میں عورتیں اور بچے کتنے محفوظ ہیں یہ تو آپ سب جان چکے ہونگے اس حوالے سے تازہ ترین سروے کے نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔پلس کنسلٹنٹ کے تازہ ترین سروے میں عوام نے خواتین کے محفوظ ہونے سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا۔سروے کے مطابق 20 فیصد نے کہا کہ ملک میں عورتیں مکمل طور پر محفوظ ہیں جبکہ 35 فیصد نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا 43 فیصد نے رائے دی کہ ملک میں عورتیں کسی حد تک محفوظ ہیں۔اس سروے میں تحفظ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر خواتین کی رائے مردوں سے زیادہ مثبت رہی 29 فیصد خواتین نے خود کو گھر سے باہر محفوظ مان لیا جبکہ 22 فیصد مردوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔۔۔۔۔
لاہور میں پنک ربن نامی تنظیم کے تحت خواتین کی چھاتی کے کینسر کے حوالے سے آگاہی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ” آئین میں عورتوں کو بہت سارے اختیارات اور حقوق دیئے گئے ہیں، وہ سارے حقوق عورتوں کو ملنے چاہئیں۔عورتوں کا حق ایسا حق ہے جس کو آئین میں تحفظ دیا گیا ہے، انکو ہر جگہ نہ صرف نمائندگی ملنی چاہئے بلکہ ان کا آئین اور قانون کے اندر جو حق ہے وہ سارے حقوق ان کو ملنے چاہئیں اور انکی ہر جگہ شرکت ہونی چاہئے، عورت اگر صحت مند نہیں رہی تو ہمارا معاشرہ بالکل صحت مند نہیں رہ سکتا، پاکستان کے ہر شہر میں چھاتی کے کینسر کے علاج کی سہولت موجود ہونی چاہیے۔ یہ بات میرے لئے حیران کن تھی کہ جہاں پاکستان میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے تاہم انکے علاج کیلئے کوئی خصوصی ہسپتال نہیں، یہ میرے لئے بڑی تکلیف دہ بات تھی اور اس کو میں نے پڑھا اوراس کو سمجھنے کی کوشش کی۔“
ٓ چیف جسٹس صاحب کی طرح ہم سب کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرف اور کیوں جا رہا ہے ، کیا یہ معاشرہ زندگی اور مستقبل کے تقاضوں کو پورا کر پائے گا ۔۔۔۔؟ ملک میں گذشتہ 2برسوں میں خود کشی کی شرح 3سے بڑھ کر 8فیصد تک ہو گئی ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کے تقریباً 25فیصد افرادڈپریشن ، ذہنی دباﺅ اور دیگر دماغی امراض میں مبتلا ہیں ۔ یہاں یہ یاد رہے کہ خود کشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اور خود کشی کی اہم وجہ معاشی تنگدستی اور کورونا وائرس ہے۔
ملک میں خواتین کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی بھی اپنے مو¿قف میں ”تبدیلی “ لا چکی ہے ۔ اس بار لاہور میں یوم حجاب کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت سراج الحق بھی کہہ چکے ہیں کہ ” عورت خوشحال ہو گی تو معاشرہ خوشحال ہو گا ہمیں موقع ملا تو خواتین کیلئے بجٹ کا 33فیصد مختص کریں گے، تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت بھی تبدیلی نہیں لا سکی تبدیلی وہ جماعت لا سکتی ہے جو ہر لحاظ سے مضبوط ہو ۔ “
دوسری جانب”تبدیلی سرکار “ کے نمائندے وفاقی وزیربرائے قانون و انصاف سینیٹر ڈاکٹر محمد فروغ نسیم نے گذشتہ دنوں فیڈرل سروس ٹریبونل کی چھٹی قومی جوڈیشل کانفرنس میںکہا ہے کہ” حکومت ملک میں منصفانہ انصاف کے نظام کیلئے فوجداری قوانین میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں ،اصلاحات کے بعد 9 ماہ میں مقدمے کا فیصلہ ہوسکے گا، پولیس اسٹیشن میں شکایت کنندہ کے بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جائیگی تاکہ پولیس یا شکایت کنندہ کی طرف سے بیان میں کوئی ردو بدل نہ ہوسکے، قانون سازی کررہے ہیں کہ اب ایس ایچ او کیلئے بی اے پاس ہونا لازمی ہوگا،ملک میں صحیح طریقے سے قانون کی حکمرانی کی نفاذ کیلئے منصفانہ اور درست نظام کا ہونا بہت اہم ہے۔ مستقبل میں قانون میں اصلاحات کی وجہ سے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی)کے افسران بھی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)کا حصہ ہونگے۔“
یہاں ہم اپنی حکومتوں کو یاد کرواتے چلیں کہ گذشتہ دنوںلاہور ہائیکورٹ میں وکیل آپے سے باہر ہو گیا تھا اور اس نے کاپی برانچ کے شیشے توڑ ڈالے تھے وجہ صرف اتنی سی تھی کہ وکیل محترم کو مقدمے کی مصدقہ کاپی تاخیر سے ملی تھی۔۔۔۔۔تو ہمارے حکمرانوں سنو ۔۔۔۔خواتین ابھی خاموشی سے سب سہہ رہی ہیں جس دن یہ وکیل کی طرح آپے سے باہر ہوئیں تو بہت کچھ ٹوٹے گا ۔۔۔۔سنا ہے”غیرت “ صرف مردوں کو آتی ہے۔۔۔معاف کیجئے گا یہ ضروری نہیں آج سے 7سال قبل2014ءمیں ایک عدالت کے احاطے میں ہونے والے قتل پر میں نے ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ”غیرت مجھ کو آتی ہے “۔ یہ نظم ملاحظہ فرمائیے
غیرت مجھ کو آتی ہے
جب لڑکی کوئی مرتی ہے
گولی کھا کر گرتی ہے
عدلیہ کے احاطوں میں
پولیس سے باتوں باتوں میں
جب پتھر مارے جاتے ہیں
مقتل سجائے جاتے ہیں
پھر بیٹی کوئی مرتی ہے
تو غیرت مجھ کو آتی ہے
کہیں باپ اور بھائی مارتے ہیں
کہیں شوہر جلا کر مارتے ہیں
کہیں بھوک سے مر جاتی ہے
ہر آہٹ پر ڈر جاتی ہے
ریت ، رواج ، سماج ہوئے دشمن
پھر بھی جب ڈٹ جاتی ہے
تو غیرت مجھ کو آتی ہے
اِس جنم جلی کو کیا کہوں
غم کی پلی کو کیا کہوں
کیوں جنم لیا اِس دھرتی پر
بس قدم رکھا ہے ارتھی پر
مائیں ظالم کی ساتھی ہوں
تو موت بھی گھبرا جاتی ہے
یوں غیرت مجھ کو آتی ہے
بس غیرت مجھ کو آتی ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button