جنرل

کورونا وائرس: صحت یاب ہونے والوں سے خون کا عطیہ دینے کی اپیل

[ad_1]

تصویر کے کاپی رائٹ
PA Media

برطانیہ نے کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والوں کے خون سے اس مرض میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے سے متعلق کوششیں تیز کردی ہیں۔

برطانوی محکمہ صحت کے بلڈ ٹرانسپلانٹ کے ادارے نے کووڈ-19 سے شفایاب ہونے والوں سے خون کا عطیہ دینے کا کہا ہے تاکہ وہ ٹرائل کر کے اندازہ لگا سکیں کہ یہ کس حد فائدہ مند ہے۔

یہ امید کی جا رہی ہے کہ کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کی اینٹی باڈیز اب دوسرے مریضوں سے اس وائرس کے خاتمے کی وجہ ہو گی۔

امریکہ نے پہلے ہی 1500 سے زائد ہسپتالوں میں اس بڑے تحقیقاتی منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔

کورونا وائرس مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی حائل

پاکستان میں مذہبی اجتماعات پر پابندی تنازع کا شکار

کورونا وائرس مذہبی تہواروں پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے؟

جنوبی کوریا کے پادری کی کورونا وائرس پھیلانے پر معافی

مساجد کھلی ہوں گی مگر باجماعت نمازوں کے اجتماعات انتہائی محدود

برطانوی محکمہ صحت کے خون کے عطیات لینے والی تنظیم نے اب ایسے افراد سے رابطہ شروع کردیا ہے جو اس وائرس سے صحتیاب ہوئے ہیں تاکہ یہ تجربہ کیا جا سکے کہ پلازمہ سے کورونا کے مریضوں کا علاج ممکن ہے یا نھیں۔

ایک بیان میں تنظیم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہماری رائے میں کووڈ-19 کے ممکنہ علاج کے طور پر پہلے تجرباتی بنیادوں پر اس کا استعمال عمل میں لایا جائے گا۔

اگر اس کی منظوری دے دی جاتی ہے تو پھر ٹرائل میں اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی جائے گی کہ آیا اس وائرس کے صحتیاب ہونے والوں کے پلازمہ سے کووڈ-19 کے مریضوں کے جلد صحتیاب ہونے اور بچنے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔

کلینیکل ٹرائل کے بعد اس کی منظوری حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی تاکہ کورونا وائرس کے مریضوں کو بچایا جائے اور مثبت نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

تنظیم کے مطابق وہ حکومت اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے تاکہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اس کی منظور حاصل کر لی جائے۔

کیا باقی بھی کوئی ایسا کر رہا ہے؟

برطانیہ میں دیگر کئی اور گروپ بھی پلازمہ سے علاج کے بارے میں سنجیدگی دکھا رہے ہیں۔

کارڈیف کی یونیورسٹی ہاسپٹل آف ویلز نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اس ہفتے اس ٹیکنالوجی کا تجرباتی بنیادوں پر استعمال کریں گے۔

میڈیکل سائنسز کی اکیڈمی اور کنگز ہیلتھ پارٹنر کے، جس میں کنگز کالج لندن اور تین ہسپتال بھی شامل ہیں، ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر سر رابرٹ لیچلر کو امید ہے کہ وہ کم درجے پر اس کا تجربہ کرنے صلاحیت کی سہولت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

وہ پلازمہ کو انتہائی علیل مریض کے لیے، جن کا اور کسی طریقے سے علاج ممکن نہیں رہا ہو، استعمال کے خواہاں ہیں، جبکہ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر قومی سطح پر ٹرائل ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اگر ہم کسی وجہ سے آئندہ دو ہفتوں میں کچھ مریضوں کا اس طریقے سے علاج نہ کر پا رہے ہوں تو۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ محکمہ ہیلتھ کا بلڈ ٹرانسپلانٹیشن کا ادارہ اس علاج کو تجرباتی بنیادوں پر بہت جلد شروع کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

ان کے مطابق برطانیہ اس علاج کی جانب بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔

ان کے خیال میں ’اس وبا کے کئی پہلو ہیں جن پر ہم دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ آخر ہم نے اسے جلدی سے کیوں نہیں کیا۔ میرے خیال میں یہ بھی ان پہلوؤں میں سے ایک ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

برطانیہ سے باہر دنیا میں کیا صورتحال ہے؟

دنیا بھر میں پلازمہ کو علاج کے لیے استعمال کرنے سے متعلق تجربات ہو رہے ہیں۔

امریکہ میں محض تین ہفتوں میں سائنسدانوں نے ملک بھر میں ایک منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت اس وقت 600 مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔

مائیو کلینک کے پروفیسر مائیکل جوائنر اس منصوبے کی سربراہی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہفتے کے دوران جو چیز ہم نے سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ حفاظتی اعتبار سے اور اس انجکشن لگانے سے کوئی منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے ہیں۔

ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ آکسیجن کی فراہمی میں بہتری کے ساتھ مریضوں کی صحت میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

یہ نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں تاہم ابھی انھیں بہت محنت سے مزید پرکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق ابھی پلازمہ کے بارے میں بہت سے ایسا بہت کچھ ہے جس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے۔

ان کے خیال میں آئندہ ہفتوں میں شاید ہم یہ جان سکیں کے پلازمہ میں کیا ہے، اس کے اجزا کیا ہیں، باقی چیزوں کے علاوہ اینٹی باڈی لیول کیا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق بطور فزیشن بعض دفعہ آپ ایک ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس سے کہ مقصد حل ہو رہا ہو۔

اس طرح کی حکمت عملی سے پہلے پھیلنے والی وباؤں میں کتنی مدد مل سکی؟

ان کے مطابق میڈیسن کے شعبے میں صحت مند ہونے والے مریضوں کے خون سے علاج کا یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے۔ یہ ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے ہسپانوی فلُو کی وبا کے روک تھام کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا اور حال ہی میں ایبولا اور سارس کی وباؤں سے متاثرین کا علاج بھی اس طریقے سے کیا جا چکا ہے۔

ابھی تک چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی تحقیق سے اس کی افادیت پر غور کیا گیا ہے اور اس حوالے سے بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ طریقہ علاج کورونا وائرس کے علاج کے لیے کتنا موثر ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ان کے پاس مدد کرنے والے لوگ کافی تعداد میں موجود ہیں۔

نیو یارک بلڈ سینٹر میں چیف میڈیکل آفیسر بروس سچیس کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ردعمل بہت ہی حیران کن ہے اور وہ بڑی تعداد میں خون عطیہ کرنے آرہے ہیں۔

ان کے مطابق ہمارے پاس خون عطیہ کرنے والے ہزاروں لوگ موجود ہیں اور ہم نے پہلے ہی ایک ہزار سے زیادہ افراد سے خون کے عطیات لیے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے کہ جو لوگ کسی بھی طرح اس وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوئے ہیں، اب ان کو یہی فکر لاحق ہے کہ وہ کیسے دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پلازمہ کوئی جادوئی علاج نہیں ہے کہ اس سے مریض ہر صورت صحتیاب ہوجائے گا۔

تاہم چونکہ اس وائرس کے علاج کے دیگر طریقے اتنے محدود ہیں کہ ویکسین کی دریافت تک اس سے ہی علاج کی امید لگائی جا سکتی ہے۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button