جنرل

کورونا وائرس سے کیسے بچیں؟ انتہائی نگہداشت وارڈ میں حفاظتی سامان کے بغیر کام کرنے والے ڈاکٹرز کی کہانی

[ad_1]

Illustrated image of a doctor in a mask

ویسے تو دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کی وجہ سے ہر شخص، ہر شہر، ہر ملک کو ہی اس سے خطرہ لاحق ہے مگر کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور طبعی عملہ خصوصی طور پر اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

مگر آپ کہیں گے ڈاکٹرز اور طبعی عملے کو تو عام لوگوں سے زیادہ احتیاطی تدابیر معلوم ہیں تو ان میں تو اس کا امکان کم ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس عالمی وبا سے لڑنے والے ان فرنٹ لائن فوجیوں کے پاس ضروری حفاظتی سامان کی سخت کمی ہے۔ اس میں ہم کوئی پیچیدہ ٹیکنالوجی یا مہنگے آلات کی بات نہیں کر رہے۔ صرف ماسک، پلاسٹک کا حفاظتی لباس، وغیرہ وغیرہ۔

اور یہ کمی کسی ایک ملک میں نہیں۔ اس حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک سے بھی ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جہاں ڈاکٹرز اور طبی عملہ ماسک، حفاظتی لباس اور ضروری تحفظ کے سامان کی عدم دستیابی کا شکوہ کر رہے ہیں۔ اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس سے ڈاکٹرز سمیت تمام ہیلتھ کیئر عملہ متاثر ہو رہا ہے۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ڈاکٹرز کی ایک ایسوسی ایشن کے حکام کے مطابق حیات میڈیکل کمپلیکس پشاور میں تعینات پروفیسر ڈاکٹر جاوید ماہر امراض ناک گلہ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید کی حالت چند روز پپلے خراب ہوئی، جس کے بعد ان کے ٹیسٹ کیے گئے جس میں وائرس کی تصدیق کے بعد انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

کورونا

کورونا کے مریض دنیا میں کہاں کہاں ہیں؟

وہ پانچ وبائیں جنھوں نے دنیا بدل کر رکھ دی

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

پشاور کی ڈاکٹر بہنوں کے والدین کے خدشات اور جذبے کیا ہیں؟

کورونا

صوبائی حکام نے بی بی سی کے عزیزاللہ خان کو بتایا کہ ڈاکٹر جاوید کے علاوہ خیبر پختونخوا میں سینیئر پروفیسرز سمیت 18 ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کے افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔

پاکستان میں اب تک کورونا وائرس سے جہاں کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہیں تین ڈاکٹرز بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ تازہ ترین ہلاکت ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کی ہے، جو کراچی کے علاقے گلشنِ حدید میں واقع ایک خیراتی ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

ماہرینتصویر کے کاپی رائٹ
AFP

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ پیتھالوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسن سے منسلک پروفیسر عفیہ ظفر نے بی بی سی کے کریم الاسلام کو بتایا کہ ہسپتالوں میں صفائی کے عملے سے لے کر لیب ٹیکنیشنز، نرسوں اور ڈاکٹرز تک جو کوئی بھی کورونا سے متاثرہ مریضوں کے ساتھ کام کرتا ہے، اُس میں وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

عفیہ ظفر نے بتایا کہ ‘طبی عملے کا مریضوں سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے جسم سے نکلنے والے مواد کے ذریعے وائرس اُنھیں منتقل ہو سکتا ہے۔ پیرامیڈیکل عملہ دن میں کئی کئی بار متعدد متاثرہ مریضوں کے ساتھ رابطے میں آتا ہے جس کی وجہ سے اُن میں عام لوگوں کے مقابلے میں وائرس کے حملے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔’

‘چونکہ ابھی کورونا وائرس کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں لہٰذا ہمیں وائرس کی ‘انفیکشس ڈوز’ (جراثیم کی وہ کم سے کم مقدار جو کسی انسان کو متاثر کر سکتی ہے) کے بارے میں علم نہیں۔

اور دکھ کی بات یہ ہے کہ دوسروں کی جان بچانے کے لیے خود کو داؤ پر لگانے والے، ان معلومات کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ بنیادی ساز و سامان نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز اور دیگر عملہ مکمل طور پر اپنی حفاظت نہیں کر پا رہا، جس کی وجہ سے وہ وائرس کا شکار ہو رہا ہے۔

مالاکنڈ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر وحیدگل خود بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے، مگر اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

ڈاکٹر وحید گل نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ اب ٹھیک ہیں اور ان میں بظاہر کوئی علامات جیسے کھانسی یا بخار نہیں ہے تاہم ان کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور وہ اب احتیاط کریں گے۔ انھوں نے لوگوں سے بھی کہا ہے کہ وہ محدود رہیں، محفوط رہیں۔

ڈاکٹرتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

پروفیسر عفیہ ظفر نے بتایا کہ ڈاکٹروں اور طبعی عملے کے وائرس سے متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کورونا کے اکثر مریضوں میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ جب یہ متاثرہ لوگ ہسپتالوں کے او پی ڈی میں معمول کے معائنے کے لیے جاتے ہیں تو وہ لاشعوری طور پر ڈاکٹرز اور نرسوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

پروفیسر عفیہ ظفر کے مطابق طبی عملے کے لیے مخصوص حفاظتی سامان یا پی پی ای کی موجودگی میں بھی وائرس سے متاثر ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ‘اِس سلسلے میں سب سے اہم بات اِس حفاظتی سامان کا درست استعمال ہے۔ صرف پی پی ای کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ طبی عملہ، مریضوں کو لانے لے جانے والے افراد اور یہاں تک کہ کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی آخری رسومات انجام دینے والے لوگ بھی پی پی ای کا درست استعمال جانتے ہوں۔’

پی ڈی اے کے ترجمان ڈاکٹر سلیم خان کے مطابق سپیشلائزیشن کی ٹریننگ کرنے والے پروونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹر امان خٹک بھی کورونا وائرس کے شکار ہو گئے ہیں اور نارتھ ویسٹ ہسپتال میں داخل ہیں البتہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

ڈاکٹر سلیم خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں اور عملے کے دیگر افراد کے لیے حفاظتی سامان کی کمی ہے جس وجہ سے طبی عملہ متاثر ہو رہا ہے۔

ڈاکٹرزتصویر کے کاپی رائٹ
YDA

صوبہ پنجاب میں ڈاکٹرز زیادہ متاثر ہوئے

صوبہ پنجاب کے شہر ملتان اور ڈیرہ غازی خان سے کورونا وائرس سے متاثرہ ڈاکٹرز کی زیادہ تعداد سامنے آئی ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن لاہور کے ترجمان ڈاکٹر عمار نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک ملتان میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے 18 افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ مزید عملے کے افراد کے ٹیسٹ بھیجے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان میں طبی عملے کے 12 افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔

ڈاکٹر عمار کے مطابق اس وقت حکومت کی جانب سے ٹیسٹ کرنے کی شرح انتہائی کم ہے، جس وجہ سے اصل صورتحال سامنے نہیں آ رہی اور حکومت کو چاہیے کہ دس لاکھ کی آبادی میں کم سے کم دس ہزار افراد کا ٹیسٹ تو کرے جس کے بعد صورتحال واضح ہو سکے گی۔

خیبر پختونخوا میں ڈاکٹرز کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟

صوبائی دارالحکومت پشاور کے مولوی جی ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر کریم میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

ڈاکٹر کریم کی حالت اب بہتر ہے اور انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ مولوی جی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اختیار ولی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا ہسپتال بنیادی طور پر بچوں اور زچگی کے مریضوں کے لیے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں جراثیم کش سپرے کر کے 48 گھنٹوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور عملے کے تمام افراد کے ٹیسٹ کرائے جا رہے ہیں اور ہسپتال پیر کی رات سے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں 16 ڈاکٹرز اور طبی عملے کے افراد اس وائرس سے اب تک متاثر ہو چکے ہیں، جن میں سات ڈاکٹرز، ایک نرس اور ایک پیرا میڈیکل سٹاف کا تعلق پشاور سے ہے۔

اس کے علاوہ دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، بونیر، کرک، سوات اور مردان سے ایک ایک عملے کے افراد متاثر ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر عفیہ ظفر کے مطابق پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ یا پی پی ای استعمال کرنے والے اکثر ڈاکٹرز اور نرسز اِس حفاظتی سامان سے الجھن یا گرمی لگنے کی شکایت کرتے ہیں، پھر جب وہ ہسپتالوں کے شدید دباؤ والے ماحول میں کام کرتے ہیں تو بے احتیاطی کا امکان بھی رہتا ہے۔

قرنطینہ

Image caption

ڈاکٹر عبداللہ اُن ڈاکٹروں میں شامل تھے جنھوں نے کورونا کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کیے اور سکھر اور حیدرآباد میں ساڑھے آٹھ سو زائد افراد کے نمونے اکھٹے کیے، ایک ساتھی ڈاکٹر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد وہ سیلف آئسولیشن میں چلے گئے

اِس سلسلے میں وہ چین کے شہر ووہان کی مثال دیتی ہیں، جہاں کورونا وائرس کی وبا پھوٹی۔ عفیہ کے مطابق ووہان میں ابتدائی چند دنوں کے دوران پیرا میڈکل عملے کی بہت ہلاکتیں ہوئیں لیکن بعد میں اُن پر قابو پا لیا گیا۔

اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے طبی عملے نے حفاظتی اصولوں پر سختی سے عمل نہیں کیا۔

عفیہ ظفر کا کہنا ہے کہ ‘ڈاکٹروں کی عمر اور اُن کی عمومی صحت بھی اِس سلسلے میں ایک اہم پہلو ہے۔ وہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ جو پہلے سے کسی مرض جیسا کہ بلڈ پریشر، شوگر یا جگر کے عارضے میں مبتلا ہوں یا جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں یا جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے، اُن کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔’

عفیہ ظفر کا کہنا ہے کہ پاکستان خوش قسمت ہے کہ فی الحال یہاں کورونا وائرس نے بہت زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کیا ہے لیکن دوسرے ممالک کے تجربات اور ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

ان کے مطابق ’یہ ہمارے لیے بہترین موقع ہے کہ اِس دوران ہم اپنے طبی عملے کو تربیت فراہم کریں۔ ہم دوسرے ممالک کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور طبی عملے کے لیے تجویز کردہ عالمی حفاظتی اُصول یہاں بھی نافذ کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر عفیہ کہتی ہیں کہ اگر ہماری تیاری اچھی ہوگی اور ہمارے فرنٹ لائن ورکرز کے پاس بہترین سہولیات موجود ہوں گی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بے شمار قیمتی جانیں نہ بچا سکیں گے۔

Photo of Dr Roberts helping her colleagues by securing bin bags on their heads

باقی دنیا میں کیا صورتحال ہے؟

برطانیہ میں جیسے جیسے کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ویسے ویسے ملک بھر میں موجود ہسپتالوں میں شدید طور پر بیمار مریضوں کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈز قائم کیے جا رہے ہیں۔ ملک میں اب تک کورونا متاثرین سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

انگلینڈ میں طبی عملے کے متعدد کارکنوں نے بی بی سی کو اپنے ہسپتالوں میں طبی ساز و سامان کی کمی کے متعلق بتایا ہے مگر انھیں ہسپتالوں کی صورتحال کے متعلق عوامی سطح پر میڈیا سے بات کرنے سے روکا گیا ہے۔

اس کے باوجود ایک ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ڈیوٹی دینے والی ایک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا ہے کہ کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والوں کو کن خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے۔ بی بی سی نے ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے ان کا نام تبدیل کیا ہے۔

ڈاکٹر روبرٹس کہتی ہیں کہ ہسپتال تباہی کے دہانے پر ہے۔

انتہائی نگہداشت کا وارڈ کورونا کے مریضوں سے پہلے ہی بھرا پڑا ہے۔ کورونا کے مریضوں کے علاوہ تمام بیماریوں کا علاج اس وقت غیر اہم محسوس ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ کینسر کے مریضوں کا معائنہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ہسپتالوں میں طبی عملوں، بستروں ادویات اور خصوصاً وینٹی لیٹرز کی شدید قلت ہے۔

Illustrated image of several patients on an intensive care ward

اس سب کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی منڈلا رہا ہے کہ برطانیہ میں کورونا کے مریضوں میں اضافے کی حد کہاں تک ہو گی، اپریل کے وسط تک اس کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ طبی عملہ پہلے ہی سے اس کے دباؤ میں ہے۔

تاہم ڈاکٹر روبرٹس کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ خطرہ ناک کچھ بھی نہیں کہ وہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ جو ان شدید بیمار مریضوں کی دن میں 13 گھٹنے روزانہ دیکھ بھال کرتا ہے، ان کے پاس اس وبا سے بچاؤ کے لیے ذاتی حفاظتی لباس اور کٹس موجود نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے جسموں کو پلاسٹک کے شاپروں اور سکیننگ کرنے والے چشموں سے ڈھانپ کر ذاتی حفاظتی کٹس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

حالانکہ عوام کو دو میٹر کے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کا کہا جا رہا ہے جبکہ این ایچ ایس کا عملہ کورونا کے مشتبہ مریضوں کا 20 سینٹی میٹر کے فاصلے سے معائنہ کرتا ہے۔

ڈاکٹر روبرٹس کہتی ہیں کہ ‘اس مرض کے ممکنہ مہلک اثرات کے باعث اب ان کے ہپستال کا عملہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اب آگے کیا ہو گا اور انھوں نے اپنے ذاتی حفاظتی لباس جمع کرنے شروع کر دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘انتہائی نگہداشت وارڈ میں کام کرنے والی نرسوں کو بھی اب حفاظتی لباس چاہیں۔ وہ مریضوں کے معائنہ کے دوران ایسے کام سرانجام دیتی ہیں جس سے ایروسول یا ہوا میں معلق وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ لیکن انھیں عام آپریشن تھیٹر میں استعمال ہونے والی ٹوپیاں پہننے کا کہا گیا ہے، جن میں سوراخ ہوتے ہیں اور انھیں کوئی حفاظتی سامان نہیں دیا گیا ہے۔

‘یہ غلط ہے اور اسی وجہ سے ہمیں اپنے سروں پر پلاسٹک کے شاپر پہننے پڑ رہے ہیں۔’

برطانوی حکومت نے طبعی سامان کی ترسیل میں کمی اور مشکلات کو تسلیم کیا ہے تام اس کا کہنا ہے کہ قومی سطح پر طبی آلات ترسیل کرنے والی ٹیمیں فوج کے تعاون سے دن رات مل کر آلات ہسپتالوں میں پہنچانے پر کام کر رہی ہیں۔

برطانیہ کے قومی ادارہ برائے صحت این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زائد این 95 ماسک تقسیم کیے گئے ہیں لیکن انھوں نے سر اور جسم پر پہنے جانے والے حفاظتی لباس کے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی۔

ڈاکٹر رابرٹس کا کہنا ہے کہ ان کے ہسپتال کو حکومت کی طرف سے کچھ نہیں ملا ہے اور یہ بات تشویش کا باعث ہے۔

Dr Roberts pulls expiry dates from a face mask's packaging

انھوں نے کہا کہ ‘اس وقت ہم سانس لینے میں حفاظت کے لیے چہرے کے جو ماسک استعمال کر رہے ہیں ان سب کے ناقابل استعمال ہونے کی تاریخ پر نئی تاریخ درج کی جا رہی ہے۔

’گذشتہ روز مجھے ایک ماسک ملا جس پر تین سٹیکرز لگے ہوئے تھے۔ پہلے پر ایکسپائر ہونے کی تاریخ سنہ 2009 تھی تو دوسرا سٹیکر سنہ 2013 کی ایکسپائری کا تھا جبکہ تیسرے سٹیکر پر ایکسپائر ہونے کی تاریخ 2021 لکھی ہوئی تھی‘

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا کہنا ہے کہ پی پی ای (ذاتی حفاظتی ساز و سامان) کے تمام ذخیرہ شدہ سٹاک کو ایکسپائر ہونے کی نئی میعاد کا سٹیکر ‘سخت جانچ’ کے بعد دیا گیا ہے اور وہ ‘این ایچ ایس‘ سٹاف کے استعمال کے لیے محفوظ ہیں۔ لیکن ڈاکٹر رابرٹس کا کہنا ہے کہ انھیں اس پر یقین نہیں ہے۔

محکمہ صحت اور سماجی نگہداشت نے بھی کہا کہ وہ ‘اس صنعت، این ایچ ایس، سماجی نگہداشت فراہم کرنے اور فوج کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔۔۔ اگر عملے کو مزید پی پی ای چاہیے تو وہ اس کے لیے ہاٹ لائن پر آرڈر دے سکتے ہیں۔’

محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ پی پی ای سے متعلق اس کی نئی گائیڈ لائن عالمی ادارہ صحت کے مشورے کے مطابق ہیں کہ ‘طبی شعبے سے منسلک تمام لوگوں کے لیے یہ یقینی بنائیں کہ وہ اس بات سے واقف ہوں کہ انھیں کیا پہننا ہے۔’

فی الحال ڈاکٹر رابرٹس کی دیکھ بھال کے تحت ان کے تین ساتھی ہیں جو وینٹیلیٹر پر ہیں اور ان سب میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

ایک کووِڈ وارڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹر ہیں جو ایک انتہائی نگہداشت میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے اور انھیں بھی ڈاکٹر رابرٹس کی طرح تحفظ کے لیے ناکافی سامان دیا گیا تھا۔

باقی دو افراد غیر کووڈ وارڈز میں کام کر رہے تھے اور اس لیے انھوں نے کوئی پی پی ای نہیں پہن رکھی تھی۔ تاہم ان کی علامات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر رابرٹس کا خیال ہے کہ دونوں کام کے دوران ہی وائرس کی زد میں آئے۔

Abstract illustration of a hand with a pulse.

ڈاکٹر رابرٹس کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت سب سے مشکل بات یہ ہے کہ کسی کے گھر والوں کو فون پر یہ بتایا جائے کہ ہم آپ کے مرئص کے لیے اب کچھ نہیں کر سکتے، یا وہ مرنے والے ہیں اور ہم آپ کو ہسپتال میں نہیں آنے دے سکتے۔‘

‘عام طور پر آپ ان کے رشتہ داروں سے، جو ان کے ساتھ ہوتے ہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ‘ہم اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں’ لیکن مجھے ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت میں یہ نہیں کرسکتی۔‘

‘یہ لازمی نہیں کہ ان کو وینٹیلیٹر پر میں بہترین خدمات دے سکوں۔ میں بہترین نرسنگ کیئر کی ضمانت نہیں دے سکتی کیونکہ بہترین نرسوں پر چاروں طرف سے دباؤ ہے۔ ہمارے پاس اینٹی بائیوٹکس کی کمی ہو رہی ہے اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جو علاج ہم کر رہے ہیں ان سے ان کو فائدہ ہوگا بھی یا نہیں۔’

این ایچ ایس انگلینڈ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسا ریکارڈ نہیں ہے کہ اس طرح کورونا کا شکار ہونے والے کتنے ڈاکٹرز وہاں داخل ہیں جو کام کے دوران کورونا وائرس کی زد میں آئے۔

تاہم یورپ میں سب سے زیادہ متاثرہ دو ممالک کے پاس یہ اعداد و شمار ہیں۔

سپین کے ایمرجنسی کے وزیر صحت نے 27 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ 9400 سے زیادہ ڈاکٹرز اور طبعی عملے کے اراکین میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ اٹلی نے کہا ہے کہ 30 مارچ تک وہاں 6414 سے زیادہ طبعی پیشہ ور افراد کے انفیکشن کے زد میں آنے کی اطلاعات ہیں۔

برطانیہ میں متعدد ہیلتھ ورکرز کی موت کورونا وائرس سے ہوئی ہے، جن میں مغربی مڈلینڈ کی نرس اریما نسرین، مشرقی لندن میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے معاون تھامس ہاروی، وسطی لندن میں پروفیسر محمد سمیع شوشا، شمالی لندن کے ڈاکٹر الفا سعدو، ساؤتھینڈ میں ڈاکٹر حبیب زیدی، مغربی لندن میں ڈاکٹر عادل الطیار اور لیسٹر میں ڈاکٹر امجد الہورانی شامل ہیں۔

Also short of PPE, an intensive care nurse in Spain wears a bin bag and a protective plastic mask, donated by a local company.تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

حد ہے!

اٹلی اور سپین کے تخمینوں کی بنیاد پر ڈاکٹر رابرٹس کا کہنا ہے کہ طبعی عملہ آئندہ دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں ہی آنے والی کورونا کی بلند ترین سطح کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔

‘اگر سپین اور اٹلی کی طرح کورونا کے کیسز میں تیزی آتی ہے تو ہم صاف گوئی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہماری تو جان پر بن آئے گی اور ہمارے ایسے تمام مقامات جہاں ابھی کم کیسز ہیں وہ سب کے سب بھر جائیں گے۔‘

‘ہمارے پاس اینستھیٹک مشینیں جو زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار کی گئیں ہیں وہ مسلسل چار پانچ دنوں سے چل رہی ہیں۔ ان میں لیکس آ رہے ہیں اور وہ مشینیں خراب ہو رہی ہیں۔‘

انتہائی نگہداشت والے اضافی بستر، متعدد آپریٹنگ تھیٹر وارڈز میں لگائے جا رہے ہیں جس سے شدید بیمار مریضوں کی مدد کرنے کے لیے ہسپتال میں گنجائش تقریباً دگنی ہو گئی ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو خود سے سانس نہیں لے سکتے اور انھیں وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے۔ تاہم ڈاکٹر رابرٹس کا کہنا ہے کہ انتہائی نگہداشت کی خدمات میں توسیع سے نرسنگ عملہ غیر متناسب طور پر متاثر ہوں گے۔

‘انتہائی نگہداشت والی نرسیں انتہائی تربیت یافتہ ہوتی ہیں اور شدید بیمار افراد کی فرداً فرداً دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے مریض سو رہے ہوں لیکن ان سے ان کا اتنا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ وہ مریض کے سر کے ہر بال کو بیان کرسکتی ہیں۔‘

‘لیکن اب ان اضافی بستروں کے ساتھ نرسوں پر بیک وقت چار مریضوں تک کی دیکھ بھال کا دباؤ ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ شدید کیئر کے اسی معیار کو برقرار رکھیں۔ وہ رو پڑتی ہیں اور واقعی جدوجہد کر رہی ہیں۔ وہ نظام کا سب سے اہم حصہ ہیں لیکن یہی وہ حصہ ہے جو نیچے گرا جا رہا ہے۔‘

Image of an ambulance arrive at A&Eتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

گھر پر رہیں!

ہسپتال کے کار پارک میں کھڑے ڈاکٹر رابرٹس نے بتایا کہ ایمبولینس والے حصے میں کس طرح ایک عارضی عمارت ابھر آئی ہے جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہسپتال میں داخلے سے قبل مریضوں کی کورونا کی علامتوں کی جانچ کی جائے۔

ڈاکٹر رابرٹس کہتی ہیں کہ ایک ڈاکٹر اس کا ذمہ دار ہوتا ہے جو کہ عام حالات میں مریضوں کی جانچ کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اس یونٹ کو ‘لائی ڈیٹکٹر’ یعنی جھوٹ پکڑنے والی مشین کے طور پر بیان کرتی ہیں۔

ڈاکٹر رابرٹس کہتی ہیں کہ ‘لوگوں میں علامات کے متعلق جھوٹ بولنا عام ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا معائنہ کیا جائے۔ جن لوگوں کو گھر پر ہونا چاہیے وہ وہاں جانچ کے لیے چلے آتے ہیں۔‘

‘اس لیے اب ہر ایک مریض کی کار پارکنگ کے حصے میں جانچ پڑتال ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کووڈ کی علامات والے افراد ہسپتال کے صحیح حصے میں جائيں اور دوسرے ہر کسی کو انفیکٹ نہ کریں جیسے کہ کوئی اپنا ٹوٹا ہوا بازو لے کر آیا ہے تو وہ اس سے متاثر نہ ہو۔’

لیکن ڈاکٹر رابرٹس کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایمرجنسی کے لیے نہیں بلکہ سبھی کے لیے ہے۔

‘جب ہم کام پر نہیں ہوتے ہیں تو ہم ہسپتال کے بیشتر عملے سے خود کو الگ تھلگ رکھتے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو ہم سے خطرہ نہ ہو۔

لیکن ہمارے لیے سب سے مایوس کن چیز پارک کو بھرا ہوا دیکھنا ہے یا دکانیں دیکھنا ہے جو معمول سے بھی زیادہ بھری ہوئی ہیں۔ اس لیے براہ کرم گھر میں ہی رہیں۔’

اس خبر کے لیے بی بی سی کی کلیئر پریس اور بی بی سی اردو کے کریم الاسلام اور عزیز اللہ خان نے بھی رپورٹنگ کی۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button