جنرل

کورونا وائرس: سماجی دوری اختیار کرتے ہوئے پاس اوور، ایسٹر اور رمضان کیسے منائیں؟

[ad_1]

Communion is an important part of Christian worship: Sunday morning catholic mass. Holy communion in Lome, Togoتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

یہ مذہبی افراد کے لیے سال کا ایک اہم وقت ہے۔ مسیحی اور یہودی افراد ایسٹر اور پاس اوور منانے کا سوچ رہے ہیں جبکہ مسلمان رمضان کے مقدس مہینے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔

ان تینوں مذاہب میں یہ ایسے تہوار ہیں جن میں آپ خاص رسومات اور پکوانوں کے ذریعے دوسروں کے ساتھ میل جول بڑھاتے ہیں۔ تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اکثر ممالک نے سماجی دوری کے قواعد نافذ کر دیے ہیں جن کے بعد عام تہوار منانا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے۔

پاس اوور آٹھ اپریل کی شام شروع ہو گا اور یہ یہودی کلینڈر میں ایک انتہائی اہم تہوار ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

یہ ایگزوڈس کی کہانی کو یاد کیا جاتا یعنی جب پیغمبر موسیٰ نے مصر میں ان کے آباؤاجداد کو غلامی سے نکالا تھا۔

پاس اوور کی پہلی شام ایک خصوصی پکوان بنائے جاتے ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں سیڈر نامی مذہبی تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے۔ ایسے یہودی جو اسرائیل سے باہر رہتے ہیں وہ اس تقریب کو اگلی شام مناتے ہیں۔

سیڈر کا تہوار مناتے وقت لوگ کہانیاں پڑھتے ہیں، سناتے ہیں، خاص پکوان کھاتے ہیں اور گانے گاتے ہیں۔ یہ سب خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر کیا جاتا ہے۔

اس فیسٹیول کی روح دراصل تمام افراد کو زندگی جینے کی آزادی کا جشن منانا ہے۔ سیڈر کا مقصد یہ ہے کہ آپ یہ خوشی صرف اپنے خاندان کے قریب اراکین کے ساتھ منانے کی بجائے زیادہ افراد کے ساتھ منائیں۔

تاہم کورونا وائرس کے باعث نافذ کی جانے والی پابندیوں کے باعث اس سال سیڈر مختلف ہو گا۔

کورونا وائرس مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی حائل

جنوبی کوریا کے پادری کی کورونا وائرس پھیلانے پر معافی

’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مرنے والوں کو عزت دی جائے‘

اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے والوں کا دکھ

مساجد کھلی ہوں گی مگر باجماعت نمازوں کے اجتماعات انتہائی محدود

رابی رک جیکبز نیویارک میں رہتے ہیں جو امریکہ میں وائرس کا گڑھ ہے۔ وہ یونین فار رفارم جوڈیزم کے صدر ہیں جو کہ شمالی امریکہ میں ریفارم جوڈیزم کی ایک شاخ ہے۔

رابی جیکبز لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اس سال پاس اوور کے دوران کیسے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔

انھیں نے بتایا کہ ایک سیڈر منانے کا ایک طریقہ ویڈیو چیٹ کرنا ہے۔ مذہبی دستاویزات آن لائن رکھے جا رہے ہیں تاکہ تمام افراد انھیں پڑھ سکیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

قدیم تہوار آن لائن کیسے منائیں؟

رابی جیکبز ایسے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں جن کے ذریعے تقریبات کے مختلف حصوں کو موجودہ صورتحال کے حساب سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘سیڈر کے دوران روایتی طور پر ہاتھ دھوئے جاتے ہیں۔ حقیقت میں تو یہ رسمی ناپاکی ختم کرنے کے لیے علامتی طور پر کیا جاتا ہے صفائی کے لیے نہیں۔

تاہم اب ہم اس رسم کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو یہ سکھا سکیں گے کہ ہاتھ دھونا معاشرے کو صاف اور محفوظ رکھنے کے لیے کتنا ضروری ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

رابی جیکبز اس حوالے سے بھی مشورے دے رہے ہیں کہ ویڈیو چیٹ کو زیادہ مزیدار کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

‘ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب آپ پیغمبر الیاس کے لیے دروازہ کھولتے ہیں۔ اور اس کے لیے عام طور پر سیڈر کے ایک کم عمر ممبر سے دروازہ کھولنے کو کہا جاتا ہے۔’

‘ہوسکتا ہے کہ اب آپ کے گھر میں سیڈر کا کم عمر ممبر موجود نہ ہو، وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہوسکتے ہیں۔ اور وہ اپنا ٹیبلٹ اٹھا کر چلتے ہوئے اپنے گھروں کے دروازے تک جاکر اسے کھول سکتے ہیں۔’

‘لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا رسمی اشارہ ہے، تو پھر ہم آگے بڑھ کر آزاد ہونے کا احساس کیسے حاصل کریں؟’

‘ہم یہ تجویز کر رہے ہیں کہ ایک لمحے کے لیے زوم چیٹ پر جاکر یہ سوال کریں کہ

‘لوگ کن چیزوں کی امید کر رہے ہیں؟ اپنی دنیا میں مزید شفایابی اور تندرستی لانے کے لیے، ایسی کون سی چیزیں جنھیں کرنے کو ہم تیار ہیں؟’

‘پاس اوور کے پیچھے جو مقصد چھپا ہے، اس وقت ہمیں اسی کی ضرورت ہے۔ یہ ایک انتہائی مشکل اور چیلنجنگ صورتحال میں یہودیوں کے دوبارے اٹھ کھڑے ہونے کی کہانی ہے اور یہ ایک ایسی رسم ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیشہ امید قائم رکھیں۔’

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

عقیدے کے ذریعے نئے رابطے بنانا

کورونا کی وبا کے اثرات نے کچھ لوگوں کے لیے گہرائی میں جا کر اپنی ہم مذہب برادری کو جاننے کا موقع فراہم کیا ہے۔

کیرول کتوشی کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں رہنے والے ایک عیسائی ہیں۔

اگرچہ کینیا میں ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن کا آغاز نہیں ہوا ہے لیکن وہاں رات کے وقت کرفیو لگا ہوا ہے اور حکومت لوگوں کو گھر بیٹھنے کی تاکید کر رہی ہے۔

سکول بند ہیں اور صدر کا کہنا ہے کہ لوگوں کو مذہبی مقاصد کے لیے جمع ہونے سے گریز کرنا چاہئے۔

کیرول کے دونوں بچے اب ہر وقت گھر میں موجود ہوتے ہیں اور اس صورتحال میں ان کے لیے چھوٹے سے خاندانی کاروبار کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

مشکلات کے باوجود کیرول کا حوصلہ نہیں ٹوٹا اور وہ پرعزم ہیں کہ مثبت سوچ برقرار رکھیں گی۔

ان کا چرچ عام طور پر اس طرح میل جول بڑھاتا تھا کہ ممبر ہر ہفتے ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔

اب وہ ورچوئل میٹنگز کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ رابطے کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔

‘ہمارے چرچ لیڈر ہر ہفتے صحیفے اور عنوانات بھیجتے ہیں۔ ہم زوم پر ہر منگل کو تبادلہ خیال اور جمعہ کے روز دعا کرتے ہیں۔’

‘یہ تھوڑا سا مشکل ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے، خدا کے قریب ہونے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔’

کیرول کا کہنا ہے کہ ان کے چرچ کے گروپ سے جڑے رہنے کے لیے انھیں جو کام کرنا پڑتا ہے، اس کے فوائد میں اضافہ ہوا ہیں۔

‘مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمیں پہلے کی نسبت زیادہ قریب لے آیا ہے۔’

ورچوئل کمیونین

ایسٹر، عیسائیوں کے لیے سال کا سب سے اہم تہوار ہے جو 12 اپریل کو منایا جا رہا ہے۔ اس تہوار میں عیسائی حضرت عیسیٰ کو صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد ان کے دوبارہ جی اٹھنے کا جشن مناتے ہیں۔

بہت سارے لوگ خاص طور پر گڈ فرائیڈے اور ایسٹر اتوار کے دن چرچ میں جمع ہونے کے لیے خصوصی کوششیں کرتے ہیں۔

کیرول بتاتی ہیں ‘ہم گڈ فرائیڈے کے موقعے پر جمعہ کو زوم پر ہولی کمیونین رکھیں گے’

‘ابھی اس صورتحال کی وجہ سے ہمیں وہ خاص روٹی نہیں مل سکتی جو آپ چرچ میں استعمال کرتے ہیں، لہذا ہم کوئی ایسی چیز استعمال کریں گے جو اس کی نمائندگی کرے۔’

‘ہم کسی بھی عام سی روٹی کا ٹکڑا اور انگور کا جوس لیں گے، اور ان چیزوں کے ساتھ دعا کریں گے اور پھر ہم آواز ہو کمیونین کہیں گے۔’

اگرچہ پچھلے چند ہفتوں سے زندگی آسان نہیں رہی، لیکن کیرول بتاتی ہیں ‘ ہمارے گروپ کے لیے یہ اچھا وقت رہا ہے اور ہم حقیقی معنوں میں پیغمبر عیسیٰ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں- جن میں اپنے بھائی کی دیکھ بھال اور محبت کا اظہار شامل ہیں۔’

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

ایسا رمضان پہلے کبھی نہیں دیکھا

مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان المبارک 23 اپریل سے شروع ہوگا۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید حضرت محمد پر اسی مہینے میں نازل ہوئی تھی۔

مسلمان اپنے عقیدے سے وابستہ رہنے اور خدا کے قریب ہونے کے لیے دن کے اوقات میں کھانا اور پانی سے پرہیز کرتے اور روزہ رکھتے ہیں۔

پھر ہر شام غروبِ آفتاب کے وقت، اہل خانہ اور دوست افطار کے کھانے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگ نماز پڑھنے کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ اس سال پوری دنیا کے بہت سارے لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا۔

26 مارچ کی رات سے ہی جنوبی افریقہ لاک ڈاؤن میں ہے ، لوگوں کو صرف کھانا یا دوائی خریدنے جیسے ضروری وجوہات کی بنا پر گھر سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔

لاک ڈاؤن تین ہفتوں تک جاری رہے گا لیکن اس میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

ستار پارکر کیپ ٹاؤن میں واقع مسجد القدس (ملک کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک) کے ترجمان ہیں۔ تقریباً 500 افراد اس مسجد سے وابستہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ یوٹیوب اور فیس بک کے علاوہ ایک اور ایپ کے ذریعے اجتماعات منعقد رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ہم اس مرتبہ روایتی انداز میں رمضان المبارک نہیں منا سکیں گے۔’

‘ابھی، ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ صورتحال کیسی ہے۔’

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

ورچوئل افطار

برطانیہ میں نوجوان مسلمانوں کا ایک گروپ اس نئی حقیقت کو ایک موقعے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مسلم ٹینٹ پروجیکٹ میں عام طور پر ایک تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جسے اوپن افطار کہا جاتا ہے۔ وہ لندن کے ٹریفالگر سکوائر جیسے مشہور مقام پر خیمہ لگاتے ہیں اور اس میں تمام عقائد کے لوگوں کو کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔

اس سال کیونکہ معاشرتی دوری جیسے اقدامات موجود ہیں اس لیے وہ رمضان کے پہلے دن ایک ورچوئل افطار کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ ہزاروں افراد اس میں شامل ہوں گے۔

مسلم ٹیکسٹ پروجیکٹ کے لیے کام کرنے والی روہما احمد کا کہنا ہے کہ ‘ہم یقینی طور پر بڑے خواب دیکھ رہے ہیں۔’

ان کی ٹیم ایک بہترین افطار کے لیے لوگوں کو ترکیبوں سے لے کر گیمز، اور ہر ضروری چیز تک کے پیکٹ بنا کر بھیج رہی ہے۔

زوم پر کیا جانے والا یہ افطار پورے رمضان المبارک میں جاری رہے گا۔

روہما بتاتی ہیں ‘شام کی نماز جو مغرب کہلاتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم سب ایک ساتھ افطار (روزہ کھولتے) کرتے ہیں۔’

‘ہر کوئی دعا میں شامل ہوسکتا ہے۔’

روہما اور اس کی ٹیم کے لیے سوشل میڈیا، گفتگو کو جاری رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اور وہ لوگوں سے اپنے افطار کے تجربات شیئر کرنے کو کہہ رہے ہیں۔

‘ہمیں ایسا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ چونکہ ہم جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور ہیں اس لیے ہمیں یہ رمضان تنہا گزارنا پڑے گا۔’

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button