جنرل

کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی

[ad_1]

Retreat of Hernando Cortes from Tenochtitlan, Mexico in 1520.تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ہسپانوی فاتحین جنوبی امریکہ میں مہلک بیماریاں ساتھ لائے

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر کے لاکھوں افراد اپنی زندگی بسر کرنے کے انداز کو ڈرامائی انداز میں بدل رہے ہیں۔ ان میں سے بہت ساری تبدیلیاں عارضی ہوں گی۔ لیکن تاریخ میں بیماریوں کے بڑے طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں – خاندانوں کے زوال سے نوآبادیاتی نظام میں اضافے اور یہاں تک کہ آب و ہوا میں بھی۔

14ویں صدی کی بلیک ڈیتھ اور مغربی یورپ کا عروج

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

یوروپ میں بہت سارے لوگوں نے طاعون کے خاتمے کے لئے شدت سے دعا کی

1350 میں یورپ میں پھیلنے والے طاعون کا پیمانہ خوفناک تھا، جس نے آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو ختم کر دیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بوبونک طاعون سے مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق کسان طبقے سے تھا۔ جس کے باعث زمینداروں کے لیے مزدوری کی قلت پیدا ہوگئی۔ اس سے زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں میں سودے بازی کی طاقت زیادہ بڑھ گئی۔

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

غریب کورونا، امیر کورونا

’کورونا وائرس انڈیا کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا‘

’پاکستان کے سخی اور مخیر عوام کورونا کے خلاف متحد‘

لہٰذا یہ سوچ دم توڑنے لگی کہ لوگوں کو پرانے جاگیردارانہ نظام کے تحت کرایہ ادا کرنے کے لیے کسی مالک کی زمین پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس نے مغربی یورپ کو جدید، تجارتی، اور نقد پر مبنی معیشت کی طرف دھکیل دیا۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

لوگوں نے وبا کو پھیلنے سےروکنے کی کوشش میں کپڑے جلائے

جب لوگوں کو کام کے لیے ملازمت پر رکھنا مشکل ہو گیا تو کاروباری مالکان نے لوگوں کی ضرورت کو تبدیل کرنے کے لیے لیبر سیونگ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ یہاں تک کہ یہ تجاویز بھی سامنے آئی ہیں کہ وبا پھیلنے کے بعد یورپی سامراج کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی۔ سمندری سفر اور مہم جوئی کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا تھا لیکن گھر میں طاعون کی وجہ سے موت کی شرح اس قدر بڑھ گئی کہ لوگ طویل سفر پر جانے کے لئے زیادہ رضا مند ہونے لگے۔ اور اس سے یورپی نوآبادیات کو وسعت دینے میں مدد ملی۔ لہذا، معیشت کو جدید بنانے، ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور غیر ملکی توسیع کی حوصلہ افزائی سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں سے مغربی یورپ کو دنیا کے ایک طاقتور ترین خطے میں شامل ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔.

امریکہ میں چیچک کی ہلاکتیں اور موسمیاتی تبدیلی

امریکہ کی 15ویں صدی کے آخر میں نوآبادیات نے اتنے لوگوں کو ہلاک کیا جو شاید دنیا کی آب و ہوا کو تبدیل کرنے کا باعث بنا ہو۔ برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یورپی توسیع کے نتیجے میں اس خطے کی آبادی ایک سو سال میں صرف پانچ یا چھ ملین رہ گئی ہے۔ان میں سے بہت سی اموات نوآبادیاتی نظام کے علمبرداروں کی طرف سے متعارف کروائی جانے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوئیں۔ سب سے بڑا قاتل چیچک تھا۔ دیگر مہلک بیماریوں میں خسرہ ، انفلوئنزا، بوبونک طاعون، ملیریا، ڈیپتھیریا، ٹائفس اور ہیضہ شامل تھے۔ لیکن اس خطے میں جانوں کو تباہ کن نقصان اور خوفناک انسانی مصائب کے علاوہ، پوری دنیا کو اس کے نتائج بھگتنا پڑے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ہسپانوی مہم جو کی آمد کے بعد کروڑوں افراد ہلاک ہوئے

زندہ رہ جانے والے کم افراد کی تعداد کے باعث کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والی زمین کم ہو گئی اور جنگلات میں تبدیل ہونے لگی۔ فرانس یا کینیا جتنا بڑا خطہ جو کہ تقریباً پانچ لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا، تبدیل ہو گیا۔ پودوں اور درختوں کی اس زبردست نشوونما کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی واقع ہوئی اور اسی وجہ سے دنیا کے بڑے حصوں میں درجہ حرارت بھی گر گیا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کے ساتھ ہی بڑے آتش فشاں پھٹے اور شمسی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سےایک ایسا عرصہ شروع ہوا جسے "لٹل آئس ایج” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بد قسمتی سےسب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک یورپ تھا، جسے فصلوں میں شدید نقصان اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔.

زرد بخار اور ہیٹی کی فرانس کے خلاف بغاوت

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

زرد بخار اور غلاموں کی بغاوتوں کے نتیجے میں ہیٹی میں فرانسیسی حکمرانی کا خاتمہ ہوا

ہیٹی میں پھیلنے والی وبا سے فرانس کو شمالی امریکہ سے باہر نکالنے میں مدد ملی ، اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے سائز اور طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 1801 میں یورپی سامراجی طاقتوں کے خلاف غلاموں کی طرف سے ہونے والی بغاوت کی تحریک کے بعد ٹوساں لو ویختےیو نے فرانس کے تعاون سے اپنی حکومت قائم کی۔ بعد ازاں فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے اسے زندگی بھر کے لئے گورنر مقرر کر دیا۔ اس نے جزیرے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور اسے دباؤ کی غرض سے ہزاروں فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ میدان جنگ میں، کم از کم، وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ہیٹی میں اپنی افواج کی شکست کے بعد نپولین کی امریکہ میں دلچسپی ختم ہوگئی

اگرچہ زرد بخار کا اثر تباہ کن تھا، اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً پچاس ہزار فوجی، افسر، ڈاکٹر اور ملاح ہلاک ہوگئے تھے اور صرف تین ہزار مرد زندہ فرانس لوٹے تھے۔ افریقہ سے پھوٹنے والی اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپی افواج میں کوئی قدرتی مدافعت موجود نہیں تھی۔ اپنی فوجوں کی شکست اور بدنظمی دیکھ کر نپولین نے نہ صرف ہیٹی بلکہ شمالی امریکہ میں فرانس کے نوآبادیاتی عزائم کو بھی ترک کردیا تھا۔

ان کی افواج کے ہیٹی بغاوت کو کچلنے کے ناکام مشن کے آغاز کے صرف دو سال بعد، فرانس کے رہنما نے 2.1 ملین مربع کلومیٹر اراضی امریکی حکومت کو بیچ ڈالی ، جسے ’لوویزیانا پرچیز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس فروخت کے بعد ملک کا سائز دوگنا بڑھ گیا تھا۔

افریقہ میں پایا جانے والا جانوروں کا طاعون اور افریقہ میں نو آبادیاتی توسیع

تصویر کے کاپی رائٹ
iStock

Image caption

رینڈرپیسٹ نے مویشیوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہلاک کردیا

جانوروں کو متاثر کرنے والی ایک مہلک بیماری نے افریقہ میں یورپ کے نوآبادیات کو تیز کرنے میں مدد فراہم کی۔ یہ کوئی وبا نہیں تھی جس نے لوگوں کو براہ راست ہلاک کیا ، بلکہ ایک ایسی بیماری تھی جس نے جانوروں کو مار ڈالا۔ 1888 سے 1897 کے درمیان رینڈرپیسٹ وائرس ،جسے مویشیوں کے طاعون کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، نے افریقی مویشیوں کو نوے فیصد تک ہلاک کیا۔ یہ ہلاکتیں افریقہ ، مغربی افریقہ اور جنوب مغربی افریقہ کے ہورن کی کمیونٹیز میں ہوئیں جہاں اس نے تباہی مچا دی۔ مویشیوں کے نقصان سے افلاس ، معاشرے میں خرابی اور مہاجرین کے فرار ہونے کے کئی واقعات ہوئے۔ .

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

یورپی اقوام نے برلن میں ایک کانفرنس منعقد کی جہاں افریقہ کو تقسیم کرنے کا طریقہ ایک مہلک وباء کا شکار ہونے سے ٹھیک پہلے طے کیا گیا

یہاں تک کہ فصلوں کے اگانے والے علاقوں پر بھی اثر پڑا ، کیونکہ بہت سے لوگوں نے زمین پر ہل چلانے کے لئے بیلوں پر انحصار کیا۔ اس بیماری کی وجہ سے افراتفری کے باعث یورپی ممالک کو انیسویں صدی کے آخر میں افریقہ کی بڑی آبادیاں آباد کرنا آسان ہوگیا۔ ان کے منصوبے رینڈرپسٹ یا جانوروں کے طاعوں کی وبا پھوٹنے سے چند سال قبل شروع ہوا تھا۔اٹھارہ سو چوراسی سے اٹھارہ سو پچاسی میں برلن میں منعقدہ ایک کانفرنس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، پرتگال، بیلجیئم اور اٹلی سمیت یورپ کے 14 ممالک نے افریقی علاقے پر اپنے دعوؤں پر بات چیت کی، جس کو باقاعدہ شکل دے کر نقشہ سازی کردی گئی۔ براعظم پر اس کا اثر زلزلہ خیز تھا۔

1870 کی دہائی میں افریقہ کا صرف دس فیصد حصہ یورپی کنٹرول میں تھا، لیکن 1900 تک یہ بڑھ کر نوے فیصد ہوچکا تھا۔ اور اس اراضی پر قبضہ رینڈرپسٹ پھیلنے کی وجہ سے افراتفری کی مدد سے ہوا۔ اٹلی نے 1890 کی دہائی کے اوائل میں اریٹیریا کا رخ کیا۔ اقوام متحدہ کی افریقہ کی ایک تاریخ بیان کرتی ہے کہ کس طرح نو آبادیاتی نظام اس علاقے میں آیا جہاں پہلے ہی معاشی بحران تھا۔

چین میں طاعون اور منگ خاندان کا زوال

تصویر کے کاپی رائٹ
iStock

Image caption

رینڈرپیسٹ نے مویشیوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہلاک کردیا

منگ خاندان نے تقریباً تین صدیوں تک چین پر حکومت کی۔ اس دوران اس نے مشرقی ایشیا کے ایک وسیع حصے پر بہت بڑا ثقافتی اور سیاسی اثر و رسوخ قائم کیا۔ لیکن طاعون کی وبا کی وجہ سے یہ سب کچھ تباہ کن انجام تک پہنچا۔ 1641 میں ایک وبا شمالی چین پہنچی، جس سے کچھ علاقوں میں بیس سے چالیس فیصد کے درمیان آبادی ہلاک ہوگئی۔ طاعون اس وقت پھیلا جب خشک سالی اور ٹڈی دل کا بھے سامنا تھا۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

دیوار چین کا بیشتر حصہ منگ خاندان کے دور اقتدار میں تعمیر کی ہوا

کھیتوں میں فصلیں تباہ ہو گئیں، اور لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے وبا سے مرنے والے افراد کی لاشوں کو کھانا شروع کردیا تھا۔ یہ بحران شاید بوبونک طاعون اور ملیریا کے امتزاج کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمال سے آنے والے حملہ آور اپنے ساتھ لائے ہوں، جو بالآخر عظیم منگ خاندان کو ختم کرنے کا سبب بنی۔

ڈاکوؤں کے حملوں کے بعد منگ راج کی طرف سے منچوریا کی جانب سے منظم یلغار ہوئی، جس نے بعد میں منگ خاندان کی جگہ لے لی، اور اپنی وہ سلطنت قائم کرلی جو صدیوں تک جاری رہی۔ اس وقت کی منگ قیادت میں بہت سے ایسے معاملات تھے جن میں بدعنوانی اور قحط بھی شامل تھا ،لیکن یہ مہلک بیماری ان کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button